تحریر:ڈاکٹر محمد فرقان گوہر
زندگی کی بنیاد اخلاقیات پر استوار کرنا، انسان کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاہم اس کے دو اہم شعبے ہیں۔ ایک عمومی زندگی اور دوسرا فریضہ منصبی اور مشغلے سے متعلق ہے۔ وہ مشغلہ جس پر ہم اپنا «مفید وقت» خرچ کرتے ہیں۔
یوں اخلاقیات دو قسم کی ہیں:
عمومی اور منصبی/پیشہ ورانہ (professional)
عمومی اخلاقیات سے مراد ، بالعموم ہمارا رویہ اور طرز عمل ہے، جس کے پیچھے مخصوص طرز فکر کار فرما ہوتاہے ۔ عمومی اخلاقیات کاسبق سیکھنا سب انسانوں کی مشترکہ ضرورت ہے۔
زندگی کے بنیادی معاملات کے اندر « صداقت» اور سچائی، عدل و احسان، خیرخواہی اور بھلائی کا وجود، اچھی اخلاقیات کی گواہی دیتا ہے۔
عمومی اخلاقیات کی کمزوریاں آسانی سے پکڑی جا سکتی ہیں۔
اس کے لیے طرف مقابل کے ساتھ ایک آدھ معاملہ کر کے ہی انسان سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ مثلا ایک آدھ مرتبہ آپ کسی کے لیے کوئی کام کر دیں، اس کو قرض دے دیں، اس کے لیے کوئی چیز خرید لیں، یا اسے کتاب پڑھنے کے لیے(مستعار) دے دیں اور طرف مقابل کا رویہ دیکھ لیں۔
لیکن اس سے بھی اہم پیشہ ورانہ اخلاقیات ہیں۔ جو ہمارے شعبہ زندگی،ہماری ذمہ داری اور فرض منصبی سے متعلق ہیں۔
جن کے اندر فتور پڑ جائے تو پھر انسان کہیں کا نہيں رہتا۔ اپنی اہم ترین ذمہ داری ٹھیک طریقے سے ادا کرنے کی اہلیت کھو بیٹھتا ہے۔
پیشہ ورانہ اخلاقیات کا ایک اہم حصہ مہارت سے متعلق ہے، جنہیں باقاعدہ سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات کا فقدان انسان کو سعادت سے بہت دور لے جاتا ہے۔
یہ فرد کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی متأثر کرتا ہے۔ ہمارے سماج کا اصل المیہ پیشہ ورانہ اخلاقیات کا فقدان ہے۔ کیونکہ انسان کا شعبہ زندگی (تجارت، زراعت، علم و دانش، مہارتی و دفتری امور )ہی درحقیقت اس کے «وجودی شاکلہ »پر محیط ہوتا ہےجو اگر اخلاقیات سے تہی ہو تو گویا اس کا وجود زیر سوال چلا جاتا ہے۔
ہم طالب علم ہونے کے ناطے، علم کی دنیا کے کھلاڑی ہیں۔
عام علم ہی نہیں، بلکہ ایسا علم جس کا بنیادی مقصد انسانیت کو « سعادت الدارین » تک پہنچانا ہے۔
لہذا ہمیں اپنے منصبی اخلاقیات کے مسئلے میں صداقت آزمائی کی شدید ضرورت ہے۔ اور یہ کام خود سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔
مطلب یہ کہ ہم سچے دل سے خود سے پوچھیں :
1۔کیا واقعی ہم جتنی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں، دوسروں کو اسی قدر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ؟ یا اسے بڑھا چڑھا کرپیش کرکےاپنے وجود کی سچائی کو بھسم کرتے ہیں؟
2۔ہم نے جو منصب سنبھال رکھا ہے،کیا واقعی ہم اس کے اہل ہیں بھی یا نہیں؟
3۔ یا اگر اہلیت رکھتے ہیں تو اس منصب کے لیے بہتر امیدوار موجود ہے اور اس کے باوجود ہم اسے سپرد کرنے سے کترا رہے ہیں یا نہیں؟
4۔ اگر منصب تدریس ہمارے سپرد ہے تو کسی کتاب/موضوع کی تدریس کرنے سے پہلے اس پر کتنی تیاری کرتے ہیں ؟
5۔ اگر منصب تبلیغ سر انجام دے رہے ہیں تو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے کتنی محنت کر رہے ہیں؟
6۔ ہمارے اندر کا انسان شہرت طلبی اور افزون طلبی (مزید کی خواہش، حرص، طمع وغیرہ) کو کس حد تک مات دینے میں کامیاب ہوا ہے ؟
7۔ ہم دوسروں کی تنقید کو کتنی باریک بینی سے دیکھتے ہیں ؟تنقید کے بارے ہمارا رد عمل کس حد تک منطقی اور عقلی ہوتا ہے۔
8۔ہم نےاپنے نظریات اور موقف کے بارے میں کس حد تک غیر جانبداری سے شواہد و مدارک (evidences)کا جائزہ لینے کی عادت ڈالی ہے؟
9۔ مکمل طور پر شواہد و مدارک کا جائزہ لیے بغیر ، اپنے آپ کو سکوت اور اظہار لا علمی پر کس حد تک تربیت کی ہے؟
10۔ کسی کی طرفداری یا مخالفت میں حق و انصاف سے عبور نہ کرنے میں کتنے پابند ہیں؟
11۔ اپنے ہم منصب دوسرے علماءاور طلاب کے ساتھ رویہ میں تواضع کس قدر ہے؟
12۔ اپنے زیر دست لوگوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟اور ان کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے؟
13۔« حجاب معاصرت »کتنی حد تک «باہمی تعارف» کی راہ میں آڑے آتا ہے؟
یہ اور اس جیسے متعدد سوالات کی روشنی میں متعلقہ مہارتیں سیکھ کر ہی، ایک «اہل علم » اپنے« منصبی اخلاق » کوجلا بخش سکتا ہے۔
یقین مانیئے کسی بھی مذہبی، سماجی یا سیاسی ذمہ داری نبھانے کے لیے منصبی/پیشہ ورانہ اخلاقیات سیکھے اور کام میں لائے بغیر دوسروں کی فلاح و بہبود تو دور، اپنے تئیں ایک «مفید انسان» بننابھی ناممکن دکھائی دیتاہے۔
ڈاکٹر محمد فرقان گوہر
یکم فروری، سنہ 2024